Can i get some critique on my Ghazal please

کبھی اس پار دیکھا ہے کبھی اس پار دیکھا ہے\ میں جاؤں جس طرف بھی خود کو بس غمخوار دیکھا ہے\

دیا مجھ کو خدا تو کیوں کمالِ حسن آگاہی\ کہ اب یوسف زلیخا کو سرِ بازار دیکھا ہے\

نظر میں پھر نگاہیں ہیں مجھے کیا کچھ نہیں دکھتا\ مرے ہر نقش کو میں طالبِ دیدار دیکھا ہے\

کرو گے کس قدر شکوہ خدا سے حشر میں جاناں\ کہ تم نے بے خودی میں بھی مجھے خوددار دیکھا ہے\

ندی میں ڈوبتے ان نے ہمیں اس بار نا دیکھا\ مگر دیکھیں گے ان نے مر گئے پر پار دیکھا ہے\

ستم یہ ہے ستاروں پر کہ وہ دوئی کے ہوتے ہیں\ مگر وحدت میں خاور ہر طرف دو چار دیکھا ہے\

تڑپ ہے ان پرندوں کی کے ساروں اور افق ہووے\ جنہیں خود میں نے کل بے بال و پر لاچار دیکھا ہے\